یہ مضمون مسیحی اشاعت خانہ( ایم ۔ آئی۔ کے) لاہور کی شائع کردہ کتاب ’’تحقیق حق‘‘ سے اقتباس ہے ۔ ہم نیک نیتی کے ساتھ محض مفادَ عامہ کیلئےبلا معاوضہ اس مختصر مضمون کو قارئین اکرام کی نظر کررہے ہے۔
بائبل – کتاب مقدس
دانائے مشرق حضرت سلُیمان نے کسی وقت فرمایا کہ بہت کتابیں بنانے کی انتہا نہیں ہے (واعظ 12:12) فی الحقیقت ہماری موجودہ دنیا ہرقسم کی کتابوں سے معمور ہے ان میں سے بہت سی خراب اور نقصان دہ تعلیمات سے پُر ہیں جو اکثر نوجوان طبقہ کو راہ راست سے ہٹا کر گمراہ کر دیتی ہیں بعض کتابیں بے شک فائدہ مند ہیں جن میں زمانہ ماضی و حال کے علوم و دانش کا زخیرہ ہے بعض کتابیں بیان کرتی ہیں کہ کس طرح نڈر اور بیباک انسان محض اپنے ہمصر انسانوں کی بے لوث خدمت کے جذبہ سے معمور ہو کر انتہائی جدوجہد میں مصروف رہے اور برفانی غیر آباد خطوں میں تپتے ہوئے ریگستان میں اور خطرناک میں مہمات کے لئے نکل کھڑے ہوئے لیکن ان تمام کتابوں میں سے کتاب مقدس ایک ایسی کتاب ہے جو کئی پشتوں سے دنیا کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب ثابت ہوئی ہے۔
جب سے فن طباعت ایجاد ہوا ہے لاتعداد کتابیں معرض وجود میں آچکی ہیں مگر یہ کتاب یعنی بائبل مقدس بہ نسبت دوسری کتابوں کے کروڑوں کی تعداد میں فروخت ہو چکی ہے۔ اور بہ اعتبار جزو کل یہ نہ تو مشرق کی اور نہ ہی مغرب کی ملکیت ہے یا تو اس کتاب کا یا اس کے کچھ حصوں کا تقریبا تیرہ سو زباںوں میں ترجمہ ہو چکا ہے تاکہ زمین کے ہر حصے کے انسانوں تک اس کے مقدس پیغامات پہنچ سکیں یہ کتاب بائبل مقدس ہی ہے جسے دنیا کے مختلف نسل مختلف رنگ اور مختلف طبقوں کے کروڑ ہا انسانوں نے بیش قیمت سمجھا دنیا کے بڑے بڑے شہنشاہوں اور فلسفیوں نے اس سے محبت رکھی اور اس کی قدر کی غریب مزدوروں اور چھوٹے بچوں نے بھی اس کو یکساں عزیز رکھا اور اس کی قدر کی۔
اس مقدس کتاب کے اور اس کے پیغامات کے خلاف بے شمار جارحانہ کتابیں لکھی گئیں تاہم اس سخت عداوت کے باوجود اس کتاب نے اپنے بہترین فروخت ہونے والی حیثیت کو برقرار رکھا ہے۔ اس کی ہر سال تقریبا بیس یا تیس لاکھ جلدیں فروخت ہو جاتی ہیں اس کے علاوہ انجیل شریف کے بارے اور زبور شریف اس سے دس گنا زیادہ فروخت ہوتے ہیں یہ حقائق ہمارے سامنے ایک پہلا اور اہم سوال پیش کرتے ہیں۔
1۔ بائبل یعنی کتاب مقدس کیا ہے اور کیسے وجود میں آئی؟
بائبل مقدس جو چھیاسٹھ صحیفوں پر مشتعمل ہے پُرانے اور نئے عہدناموں میں منقسم ہے پُرانا عہد نامہ انتالیس صحیفوں پر مشتمل ہے جو کہ عبرانی زباںوں میں لکھے گئے۔ ان میں انبیاء قدیم اور عبرانی سلاطین کے تواریخی بیانات کے ساتھ ساتھ مزامیر اور پیغامات انبیاء کا ایک دلچسپ سلسلہ پایا جاتا ہے۔ ہم انکی قدامت کی وجہ سے وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ اس کا ہر صحیفہ لکھا گیا لیکن ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ چند سو سال قبل از مسیح فقیہہ کب عزرا کے زمانہ میں یہ کتا ب اسی شکل میں موجود تھی جیسے کہ آج ہے۔ پُرانے عہد نامہ کو مسیحی اور یہودی دوںوں خدا تعالیٰ کا مُستند مکاشمہ مانتےہیں
نیا عہد نامہ پہلی صدی عیسوی میں بزبان یونانی لکھی گیا۔ اس میں خداوند یسوع مسیح کی سیرت تعلیمات اور آپ کے رسولوں کے متعلق بیانات پائے جاتے ہیں مسیحی اس کتاب کو پُرانے عہد نامہ کی طرح خدا تعالیٰ کا الہامی کلام مانتے ہیں اس دعویٰ سے کہ یہ خدا تعالیٰ کا الہامی کلام ہے ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ
2۔ بائبل مقدس خدا کا کلام کس طرح ہو سکتی ہے جبکہ اسکی تصنیف انسانوں نے کی۔
یہ سوال اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ خدا کے کلام کے معنی غلط سمجھے جاتے ہیں۔ پطرس رسول نے خدا کے کلام کی بلکل صحیح تعریف درج ذیل آیات میں پیش کی ہے کیونکہ نبوت کی کوئی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی بلکہ آدمی روح القدس کی تحریک کے سبب سے خدا کی طرف سے بولتے تھے۔ (2۔پطرس 1:21)
خدا قادرمطلق ہے وہ انسانی امداد کا محتاج نہیں لیکن کتاب مقدس ہمیں یہ بتاتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو بحیثیت اپنے نائب کے خلق کیا تاکہ وہ زمین پر حکومت کرے اور آج تک خدا تعالیٰ انسان کو زمین پر اپنی مرضی پہنچانے کے لئے مافوق الفطرت طریقے استعمال کر سکتا ہے لیکن اس نے خدمت کے لئے انسانی وسائل کو زیادہ اہمیت دی کتاب مقدس کہیں اس بات کا دعویٰ نہیں کرتی کہ اس کا ہر لفظ خدا تعالیٰ کے منہ کا بولا ہو کلام ہے بلکہ اس میں بعض اوقات انسانوں کی بات چیت بھی شامل ہے مثلا ایوب نبی کی کتاب میں حضرت ایوب اور ان کے تین دوستوں کے درمیان ایک لمبی بحث کا خلاصہ ہے اس بحث کے آخر میں خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ ایوب کے دوستوں نے جو کچھ کہا ہے وہ صحیح نہیں ہے یہ الفاظ دیگر روحانی باتوں کے بارے میں ان آدمیوں کی کم فہمی اور غلطیوں کو یہ الہامی کتاب قلم بند کرتی ہے۔ حقیقت ہذا ہم پر یہ اشکارا کرتی ہے کہ خدا کا کلام صحیح معنوں میں ایک سچا تصدیق نامہ اور الہامی کلام ہے وہ انسانو جنہوں نے خدا کے قوانین پر عمل کیا انہوں نے بے شک اپنی زندگیا ں پاگیزگی اور برکت میں گزاریں۔ اس کے برعکس جو اس کے نافرمان ہوئے وہ اپنے گناہوں کے باعث برباد ہو گئے۔ بائبل مقدس خدا تعالیٰ کا کلام ہونے کے اعتبار سے نہ صرف الہی کا ظاہر کرتی ہے بلکہ انسان کی زندگی کے نمونے بھی پیش کرتی ہے۔ جن سے یہ صاف ظاہر ہے کہ انسان طبقا گناہ اور شرارت میں گمراہ ہےلہذا وہ مکاشفہ الہی کا محتاج ہے تاکہ وہ اپنے خالق کو خوش کرنے کے لئے پاکیزہ زندگی گزار سکے۔
3۔ اگر یہ کتاب خدا کا کلام ہے تو لوگ اس سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟
جواب بہت سادہ ہے دنیا میں بائبل مقدس ہی وہ واحد کتاب ہے جو یہ بتاتی ہے کہ انسان گمراہ اور گنہگار ہے اپنی شخصی خوبی یا اپنے مزہبی رسوم کی بجا آوری کی بنا پر خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل نہیں کر سکتا یہ کتاب صاف بیان کرتی ہے کہ "سب نے گناہ کیا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں۔" رومیوں 3:23)
اس لئے وہ لوگ جو اپنی گناہ آلودہ حالت کا اقرار کرنا پسند نہیں کرتے بائیبل مقدس سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ یہ کتاب اُن کی موجودہ گناہ الودہ زندگی کے خلاف خدا تعالیٰ کی خفگی اور گناہ کی آخری سزا کا اظہار کرتی ہے اس کے برعکس جنہیں اپنے گناہوں کی معافی کے لئے ایک نجات دہندہ کی ضرورت کا احساس ہے وہ دنیا میں انہیں گناہ کے خوفناک پنجہ سے چھڑانے اور آزاد کرنے کے لئے آیا ہے۔ بیشک ان کے لئے یہ کتاب بیش قیمت خزانہ ہے اس کے مقدس پیغامات میں ان کے لئے اطمینان و یقین موجود ہے۔
4۔ کیا بائبل مقدس ایک متروک اور غیر صحت مند کتاب نہیں ہے؟
اسی قسم کے شک و شبہات بہت عام ہیں اکثر لوگ یہ خیال کرتے ہوئے کہ ایسی پُرانی کتاب میں ہمارے ایٹمی زمانہ کے لئے کوئی پیغام نہیں ہو سکتا لہذا وہ بائبل مقدس کو نظر انداز کر دیتے ہیں اس کا صحیح جواب کیا ہے افسوس مخالفان بائیبل مقدس نے اس کے خلاف اور اس کے ماننے والوں کے خلاف تحقیر تضحیک کا ایک انبار لگا دیا ہے تاہم صدیوں سے اس نامناسب برتاؤ کے باوجود موجودہ دنیا کے مردوں اور عورتوں کے ایمان کی یقینی اور مستحکم بنیاد آج تک قائم ہے در حقیقت اس قسم کی شدید مخالفت صحیح معنوں میں اس کے دعوؤں کی تحقیق و جستجو کا سبب بنی ہے لہذا پُرانے زمانے کی نسبت آج ہم زیادہ وثوق کے ساتھ اس کی صحت پر یقین کر سکتے ہیں مخالفوں کا عموما یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ اسکا تواریخی حصہ محض عبرانی انسانوں کا ایک مجموعہ ہے لیکن فی زمانہ علم آثار قدیمہ نے اس بات کو پایہ ثبوت تک پہنچا دیا ہے کہ اس کے تواریخی بیانات فی الحقیقت الہامی ہیں حقیقی سائنس اس کے کسی بیان کی تردید نہیں کرتی حقیقی سائنس سے ہماری مُراد حقائق حقائق سائنس اور عام نظریات سائنس کے مابین صاف صاف فرق معلوم کرنا ہے۔
5- کیا کتاب مقدس میں تحریف اور کانٹ چھانٹ نہیں کی گئی ہے؟
اگر یہ عام اعتراض ٹھیک ثابت کیا جا سکے تو یقینا یہ بہت اہم ثابت ہوگا۔ سب سے پہلے ہمیں یہ معلوم کرنا چاہئے کہ ان اصطاحات یعنی تحریف و تخریب یا ردوبدل کی صحیح تشریح کیا ہے۔ کیا یہ سوال اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ بائبل مقدس کے متن میں بڑی ہوشیاری کے ساتھ دیدہ و دانستہ دست اندازی اور عمدا کمی بیشی کی گئی ہے؟ کیا یہاں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بائبل مقدس کے مختلف تراجم غلط ہیں؟
سب سے پہلے ہم یہاں پہلے سوال کی طرف رجوع کریں گے ہمارا پُرزور دعویٰ ہے کہ بائبل مقدس کے متن میں دیدہ و دانستہ کوئی تحریف یا تبدیلی نہیں کی گئی ایک ہزار سال ق م میں خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو درج ذیل جملوں میں سخت متنبہ کیا تھا۔
"جس بات کا میں تم کو حکم دیتا ہوں اس میں نہ تو کچھ بڑھانا اور نہ کچھ گھٹانا تاکہ تم خداوند اپنے خدا کے احکام کو جو میں تم کو بتاتا ہوں مان سکو۔ استثنا 4:2)
صدیوں بعد حضرت سُلیمان یوں گواہی دیتے ہیں تو اس کے کلام میں کچھ نہ بڑھانا مبادا وہ تجھ کو تنبیہ کرے اور تو جھوٹا ٹھہرے" امثال 30:6)
ان کے ساتھ بائبل مقدس کی آخری تنبیہ کو بھی ملاحظہ فرمائے "میں ہر ایک آدمی کے اگے جو اس کتاب کی نبوت کی باتیں سنتا ہے گواہی دیتا ہوں کہ اگر کوئی آدمی اُن میں کچھ بڑھائے تو خدا اس کتاب میں لکھی ہوئی آفتیں اس پر نازل کریگا۔ اور اگر کوئی اس نبوت کی کتاب کی باتون میں سے کچھ نکال ڈالے تو خدا اس زندگی کے درخت اور مقدس شہر میں سے جن کا اس کتاب میں زکر ہے اس کا حصہ نکال ڈالے گا۔ (مکاشفہ 22: 18-19)
بائبل مقدس کی اس قسم کی سخت تنبیہ کے پیش نظر وہ لوگ جو اُسے خدا تعالیٰ کا کلام مانتے ہیں اس کے متن کو بدلنے کی جرات نہیں کر سکتے اورنہ ہی ان کے پاس اس کے بدلنے کا کوئی جواز ہے بغرض محال اگر کوئی بے ایمان شخص بُری نیت سے اس کے متن کو تبدیل کرنا یا بگاڑنا چاہئے تو اس کے لئے کیسےممکن ہو سکتا ہے کہ وہ مختلف ملکوں اور شہروں میں ہزار ہا نسخوں میں دست اندازی کرے اگر اس کی ایک بھی جلد بگاڑ دی جائے تو فورا اس کی گرفت ہو جائے گی ہر شخص جو بائبل مقدس سے قدرے واقف ہے یہ جانتا ہے کہ جب بھی کوئی نیا ترجمہ شائع ہوتا ہے تو اسے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہےجس کی مثال موجودہ ادبی تواریخ میں نہیں ملتی تاہم اس بات کو ہم تسلیم کرتے ہیں اور دیکھا بھی گیا ہے کہ زمانہ سابقہ میں جب لوگ محنت اور بڑی احتیاط کے ساتھ کتابوں کی نقل اپنے ہاتھوں سے کرتے تھے تو بھی غلطی رہ جایا کرتی تھی مثلا ہجے کی غلطی وغیرہ لیکن متن یا اُصولی تعلیم کی غلطی کسی کاتب سے سرزد نہیں ہوئی فی الحقیقت جہاں کہیں اس قسم کی غلطی کا پتہ چلا اس کو فورا طشت ازبام کردیا گیا تاکہ دنیا کے علماء اس سے آگاہ ہو جائیں اور اس کو سہو کاتب مان کر نظر انداز کر دیں۔
اگر مسیحی زمانہ سابقہ کی بائبل مقدس کے صرف ایک یا دو ہی نسخے موجود ہوتے تو اس سوال کا جواب دینا قدرے مشکل ہو جاتا لیکن جب کہ قدیم قلمی نسخے ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں تو یہ دعویٰ کرنے کے لئے ہمارے پاس معقول وجہ ہے کہ ان میں تحریف و تخریب کے مسلہ کو ثابت کرنے کے لئے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملتا برائے نمونہ ہم یہاں ڈیڑھ ہزار سال قدیم بائبل مقدس کے ایک قلمی نسخے کی چند سطریں پیش کرتے ہیں یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بائبل مقدس تحریف و تخریب کے عیب سے مبرا اور پاک ہے ۔
مسیحیوں کو بائبل مقدس کی صداقت ودراستی پر اس قدر یقین ہے کہ انہوں نے اپنے اس یقین پر نہ صرف اس کے قدیم قلمی نسخوں ہی کی تحقیق و تفتیش کی بلکہ اس یقینی ایمان پر بھی ایک الہی و الہامی کتاب میں کبھی کوئی جھوٹ نہیں پکڑا جا سکتا ۔ او ربائبل مقدس کے بدترین مخالفوں کی نکتہ چینیوں کو بھی خوش آمدید کہا یہ صدق دلی کا ایک واضح ثبوت ہے جو اور مزاہت میں نہیں پایا جاتا کیونکہ انکی کتابوں پر کسی کو اس قسم کی نکتہ چینی کی بالکل اجازت نہیں اور نہ ہی وہ لوگ غیر معتقدوں کی ایسی حرکت کو برداشت ہی کرتے ہیں ہم مذکورہ بالا بیانات کی تائید میں قابل یقین حوالہ جات پیش کرتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ مسیحی بائبل مقدس کی صداقت کے امر میں بے شک ایک مضبوط بنیاد پر کھڑے ہیں علاوہ ازیں جو تحریف و تخریب کا الزام لگاتے ہیں ہمیں پورا حق حاصل ہے کہ ان سے درج زیل سوالات پوچھیں۔
آپ کے پاس وہ کون سی معقول دلیل ہے جو تحریف و تخریب کے الزام کو ثابت کرتی ہے؟
آپ ہمیں کسی ایسے شخص کا نام بتائیں جس نے موجودہ بائیبل سے مختلف بائبل دیکھی ہو اور جسے غیر مبدل کہا جا سکتا ہے؟
کیا آپ ایک بھی اس قسم کا تصدیق شدہ تحریفی واقعہ بتا سکتے ہیں؟
کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ کس زمانہ میں تحریفات عمل میں آئیں؟
کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ کس مقصد کے پیش نظر یہ گناہ کیا گیا؟
چونکہ سوالات کا کبھی کسی نے کوئی معقول جواب نہیں دیا لہذا مسلہ تحریف و تخریب محض ایک فرضی شے ہے۔
6۔ اگر بائبل مقدس مُحرف نہیں ہے تو ہر چند سال بعد دوبارہ کیوں لکھی جاتی ہے۔
اس شک کی بنیاد محض یہ قیاس ہے کہ بائبل مقدس کے نئے تراجم اس کے اصل نسخوں پر اثر انداز ہوتے ہیں اس قسم کا سوال محض ایک متعصب زہن ہی کر سکتا ہے بائبل مقدس کے وہ تمام تراجم جو بزبان انگریزی یا ایک ہزار سے زائد دوسری زبانوں میں ہوئے ہیں جن کا زکر پہلی نصل میں ہوا ہے سے کے سب کا ترجمہ برائے راست پُرانے عہد نامہ کا عبرانی زمان سے اور نئے عہد نامہ کا یونانی زبان سے ہوا ہے۔ سوائے ایک ترجمہ کے جو ڈوئے کا ترجمہ کہلاتا ہے جو کہ لاطینی زبان کی بائبل مقدس دلگیٹ سے کیا گیا ہے لہذا یہ بات بالکل عیاں ہے کہ نئے تراجم اس کے اصل زباںوں پر کسی طرح کا اثر نہیں ڈالتے بلکہ یہ تراجم ہماری جدید زباںوں میں ان قدیم قلمی نسخوں کے معنوں کی بہترین وضاحت کرتے ہیں۔
7۔ بائبل مقدس کی صداقتوں پر بحث کرنے میں وقت کیوں ضائع کیا جائے جبکہ قرآن مجید نے اس کی تنسیخ و تردید کر دی ہے؟
در حقیقت ہم اس کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتے کیونکہ ہمیں بائبل مقدس سے اس کے منسوخ ہونے کی کوئی شہادت نہیں ملتی یہاں تک کہ اس میں کوئی ایسا اشارہ بھی نہیں ملتا جس سے یہ ثابت ہو کہ کسی دوسرے الہام کی آمد پر اس کی تنسیخ و تردید ہو جائے گی نہ ہی قرآن مجید میں بائبل مقدس کے منسوخ یا رد ہونے کا دعویٰ پایا جاتا ہے۔ بعض اوقات بائبل مقدس کی مخالفت میں اس اعتراض کی تائید میں یہ پیش کیا جاتا ہے کہ جس طرح توریت اور صحف قدیم انجیل جلیل کی آمد سے منسوخ ہو گئے اس طرح سےقرآن مجید کی آمد سے انجیل جلیل منسوخ ہو گئی ۔ آئیے ہم اس خیال کے پہلے حصہ کی تحقیق کریں خداوند یسوع مسیح نے پُرانے عہد نامہ کا حوالہ دیتے ہوئے صاف الفاظ میں یوں فرمایا کہ یہ نہ سمجھوں کہ میں توریت یا نبیون کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک سوشہ توریت سے ہرگز نہ ٹلے گا۔ جب تک سب کچھ پورا نہ ہو جائیں۔ (متی 5: 17-18 )
اس کے علاوہ ہم یہاں ایک اور آیت پیش کرتے ہیں جسے مقدس پطرس رسول نے تحریر فرمایا ہے خداوند کا کلام ابد تک قائم رہے گا۔ یہ وہی خوشخبری کا کلام ہے جو تمہیں سُنایا گیا تھا۔ (پطرس 1: 25 )
نیز بائبل مقدس کی آخری کتاب میں ہم یہ بیان پڑھتے ہیں کہ اس نبوت کی کتاب کا پڑھنے والا اور اس کے سُننے والے اور جو کچھ اس میں لکھا ہے اس پر عمل کرنے والے مبارک ہیں (مکاشفہ 1:3)
جس حال کہ خدا تعالیٰ نے اس مقدس کتاب کے مطالعہ کرنے والوں کے لئے ایسی برکتوں کا اظہار کیا ہے تو کون یہ کہنے کی جرات کرے گا کہ یہ کتاب منسوخ ہو گئی ہےاور اب ہمارے لئے کسی کام کی نہیں۔ ایک اور آیت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ہر ایک صحیفہ جو خدا کے الہام سے ہیں تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راستبازی میں تربیت کرنے کے لئے فائدہ مند بھی ہے تاکہ خدا کے لوگ کامل بنے اور ہر ایک نیک کام کے لئے بالکل تیار ہو جائے۔ (2۔تمُتھیس 3:16-17)
8- پُرانے عہد نامہ اور نئے عہد نامہ کے درمیان اگر کوئی تعلق ہے تو وہ کیا ہے؟
اختصار کا لحاظ رکھتے ہوئے ہم اس کی تشریح یوں کر سکتے ہیں کہ پُرانا عہد نامہ ایک ایسی لازمی بنیاد ہے جس پر نیا عہد نامہ تعمیر ہوا اگر کوئی معمار ایک عظیم و حسین عمارت تعمیر کرنا چاہے تو سب سے پہلے بنیاد ڈالے گا لیکن وہ محض اتنے پر مطمئن نہ ہوگا تا وقتیکہ چھت مکمل نہ ہو جائے۔ عمارت کی دیواریں اور چھت کی تکمیل بنیاد کی وقعت کو کم نہیں کرتیں کیونکہ عمارت سراسر بنیاد پر موقوف ہے اسی طرح پُرانا عہد نامہ ایک بنیاد ہے جو کہ نسل انسانی کے واقعات کو بیان کرتے ہیں صدہا سال اسے ان کے گناہ اور ناکامی کا اظہار کرتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ انبیاء مقدسین کی معرفت خدا تعالیٰ نے اپنا کلام انسانون تک پہنچایا ہے اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ انسان اپنی زاتی کوششون اور نیک اعمال کی بنا پر گناہوں سے بچ نہیں سکتا لہذا خدا تعالیٰ نے پُرانے عہد نامہ میں کئے ہوئے عہد و پیمان کی تکمیل کی خاطر ایک نجات دہندہ کو مبعوث کرنے کا وعدہ کو کس طرح پورا کیا مُنجی موعود کس طرح مبعوث ہوا اور کل دنیا میں اس پیغام نجات کو کس طرح اشاعت ہوگی۔ ان حقائق کی روشنی میں پہلی کتاب یعنی پرانا عہد نامہ کی کتاب العہد یعنی وعدوں کی کتاب اور دوسری کتاب یعنی نیا عہد نامہ کتاب لتکمیل العہد وعدوں کے پورا ہونے کی دستاویز ہے۔
9۔ نئے عہد نامہ میں چار مختلف اناجیل کیوں شامل ہیں۔؟
عموما بیان کیا جاتا ہے۔ کہ چاروں انجیلوں میں تضاد پایا جاتا ہے اس کا صحیح جواب یہ ہے کہ وہ صحیح معنوں میں ایک دوسرے کی توضیح و تکمیل کرتی ہیں ہم اس مسلے کو ایک مثال کے ذریعے واضح کرتے ہیں فرض کیجیئے کہ لاہور میں ایک سیاح آتا ہے جو وائی ایم سی اے میں ٹھہرنا چاہتا ہے چونکہ اُسے معلوم نہیں کہ وائی ایم سی سے کہاں ہے اس لئے وہ ایک سپاہی سے پوچھتا ہے جو فورا بتاتا ہے کہ یہ مال روڑ پر ہے بعد ازاں وہ کسی دوسرے آدمی سے دریافت کرتا ہے وہ بتاتا ہے کہ یہ بنک اسکوئر کے پاس ہے سیاح کچھ شش وپنچ میں پڑ جاتا ہے اور کسی تیسرے آدمی سے پوچھتا ہے جو اُسے نیلے گنبند کی طرف جانے کو کہتا ہے اس کی پریشانی اور بھی بڑھ جاتی ہے جو چوتھا آدمی اُسے بتاتا ہے کہ وائی ایم سی اےرابرٹ روڑ پر ہے تو یقینا سیاح چکرا جائے گا اور اس کے دل میں خیال پیدا ہو گا کہ لاہور کے تمام لوگ جھوٹ بولتے ہیں اس مسلے کو حل کرنے کے لئے وہ ٹیکسی پر سوار ہو جاتا ہے اور یہ جان کر اُسے حیرانی ہوتی ہے کہ ان چاروں راستہ بتانے والوں نے بالکل سچ بولا تھا وائی ایم سی اے مال روڑ بیلے گنبد کے علاقہ میں اور رابرٹ روڑ کے کونے پر بنک اسکوئر میں واقع ہے کچھ دیر کے بعد سیاح کو معلوم ہو جاتا ہے کہ ٹیکسی درائیور اُسے صحیح جگہ پر لے آیا ہے کیونکہ وائی ایم سے اے کے صحیح موقع کی شناخت کے لئے چار تکمیل بیانات موجود تھے۔ نئے عہد نامہ میں چار اناجیل کے پائے جانے کا یہی سبب ہے تاکہ لوگ خداوند یسوع مسیح کی بے نظیر شخصیت کی کمال عظمت کی قدر کر سکیں خدا تعالیٰ نے چار اشخاص کو اپنا الہام عطا فرمایا تاکہ وہ خداوند یسوع مسیح سے متعلق چار مختلف نظریات قلمبند کریں تواریخ کا کوئی بھی طالب علم یہ بخوبی جانتا ہے کہ اس زمانہ کی متمدن دنیا پر تین مہذب قوموں یعنی یہودیوں یونانیوں اور لاطینیوں کا اقتدار تھا لہذا رومی حکومت کی ان تین بڑی قوموں میں خداوند یسوع مسیح کی حیات و خدمات کے حقائق کو اُنکے اپنے طریق تہذیب میں پیش کرنا بہت ضروری تھا۔
متی رسول کی انجیل خاص طور سے یہودی قارئین کے لئے لکھی گئی وہ اُن تفصیلات سے بھری ہوئی ہے کہ ان لوگوں کے لئے گہری دل چسپی کا باعث ہیں انہیں پُرانے عہد نامہ کے پیغمبروں کے صحائف کا گہرا علم تھا۔
مرقس رسول کی انجیل رومیوں کے لئے رومی سپاہیانہ مزاج کے مد نظر لکھی گئی اور اس میں خداوند یسوع مسیح کی حیات و خدمات کے بڑے بڑے واقعات کے اختصار سے بیان کیا گیا ہے۔
لوقا رسول خود ایک یونانی شخص تھے انہوں نے عمدہ اور پُر لطف زبان میں انجیل جلیل تحریر فرمائی مسیحی تعلیم اور حقائق کا یہ حسین مرقع علماء یونان اور مہذب باشندگان یونان کے لئے بڑی کشش رکھتا تھا غرض ان تینوں اناجیل کے بیانات خداوند یسوع مسیح کی بے نظیر داستان کو مختلف پہلوؤں سے پیش کرتے ہیں جو سب مل کر اس داستان کی عالمگیر مقبولیت کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔
چوتھی انجیل مسیحیوں کے لئے لکھی گئی (یعنی ان کے لئے جو پہلے ہی انجیل جلیل کے پیغامات کے مانتے تھے) جس میں عمیق مسیحی روحانی صداقتیں پائی جاتی ہیں لہذا اُن بیانات کو جو دوسرے رسولوں نے پہلے تحریر کئے تھے دُہرانا غیر ضروری تھا یہ سچ ہے کہ جس وقت اصل حقائق کے متعلق سوچا جائے اس وقت تصوراتی اختلافات خود بخود کا فور ہو جاتے ہیں۔